(انبیاء قدیم مخلوق ہیں یا حادث؟)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ:کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ انبیائے کرام مخلوق حادث ہیں یا قدیم ، زید انہیں قدیم مانتا ہے تو وہ مومن ہے یا نہیں ؟
المستفتی:ارشد رضا قادری
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب ھو الھادی الی الصواب والیہ المرجع الماب
قدیم اس ذات کو کہا جاتا ہے، جو اپنے وجود میں کسی کی محتاج نہ ہو، اور نہ اس ذات پر کبھی کوئی ایسا وقت گزرا ہو کہ جس زمانہ میں اس ذات کا کوئی وجود ہی نہ ہو، نیز قدیم وہ ذات ہے جو کبھی فنا نہ ہوتی ہو، جب کہ حادث اس ذات کو کہا جاتا ہے، جو اپنے وجود میں غیر کی محتاج ہو، اور جس کا وجود پہلے نہ ہو، پھر وجود میں آئے، اور بعد میں پھر فنا ہوجائے۔اس تشریح کے بعد بات واضح ہوگئی کہ اللہ کی ذات قدیم ہے غیر فناہونے والی ہےاور انبیاء کی ذات حادث مخلوق ہے اور فناہونے والی ہے. ارشاد باری تعالی ہے" كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ"زمین پر جتنے ہیں سب کو فنا ہے۔اور باقی ہے تمہارے رب کی ذات عظمت اور بزرگی والا۔(الرحمن۲۶،۲۷)
چونکہ انبیاء حادث ہیں قدیم نہیں اورجو حادث کو قدیم مانےوہ کافر ہے جیسا کہ سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمہ شفا شریف ونسیم الریاض کے حوالے سے فرماتے ہیں:
فرمایا:من اعتراف بالٰھیۃ اﷲ تعالٰی ووحدانیتہ لٰکنّہ اعتقدقدیمًا غیرہ،(ای غیر(عہ)ذاتہ وصفاتہ،اشارۃ الٰی ماذھب الیہ الفلاسفۃ من قدم العالم و العقول) اوصانِعًا للعالَم سواہ(کالفلاسفۃ الذین یقولون انّ الواحد لایصدر عنہ الّا واحد)فذلك کلّہ کفر(و معتقدہ کافر باجماع المسلمین کالا لٰھین من الفلاسفۃ والطبائعین)اھ ملخصًا"یعنی جس نے اﷲ تعالٰی کی الوہیت و حدانیت کا اقرار کیا لیکن اﷲ تعالٰی کے غیر کے قدیم ہونے کا اعتقاد رکھا۔(یعنی اﷲ تعالٰی کی ذات و صفات کے علاوہ،یہ فلاسفہ کے مذہب یعنی عالم وعقول کے قدیم ہونے کی طرف اشارہ ہے۔یا اﷲ تعالٰی کے سوا کسی کو صانع عالم ماننا(جیسے فلاسفہ جو کہ کہتے ہیں واحد سے نہیں صادر ہوتا مگر واحد)تو یہ سب کفر ہے(اور اس کے معتقد کے کافر ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے جیسے فلاسفہ کا فرقہ الہٰیہ اور فرقہ طبائعیہ)
اور فرمایا(صاحب نسیم الریاض علیہ الرحمہ نے)نقطع بکفرمن قال بقدم العالَم او بقاء اوشك فی ذٰلك علٰی مذھبٍ بعض الفلاسِفۃ(ومنھم من ذھب لغیرہ۔وقدکفّرھم اھل الشرع بھٰذا،لمافیہ من تکذیب اﷲ ورسلہ وکتبہ)الٰی ان قال فلا شك فی کفر ھٰؤلاِ قطعًا اجماعًا وسَمعًا "ہم اس شخص کے کفر کا قطعی حکم لگاتے ہیں جو عالم کے قدیم و باقی ہونےکا قائل ہے یا اسے اس میں شك ہے بعض فلاسفہ کے مذہب پر(اور انمیں سے بعض اس کے غیر کی طرف گئے ہیں،اہلِ شرع نے اس قول کی وجہ سے ان کی تکفیر کی ہے،کیونکہ اس سے اﷲ تعالٰی،اس کے رسولوں اور اس کی کتابوں کو جھٹلانا لازم آتا ہے۔)یہاں تك کہ فرمایا ان کے کفر میں قطعی،اجماعی اور سمعی طور پر کوئی شك نہیں .(فتاوی رضویہ ۲۷ص ۱۳۱تا ۱۳۳/دعوت اسلامی)واللہ اعلم بالصواب
نوٹ:مزید معلومات کے لئے فتاوی رضویہ کامذکورہ ص یاشفا شریف جلد دوم ص ۲۸۳ یا المعتقدالمنتقد،ص ۱۹.کا مطالعہ کریں
کتبہ
فقیر تاج محمد قادری واحدی
ایک تبصرہ شائع کریں